بے اثر اپنی دعاؤں کا اثر لگتا ہے
کب کسی شاخِ بُریدہ پہ ثمر لگتا ہے
کتنا دُکھ ہے مجھے اس دور کی ناقدری کا
چلتی پھرتی ہوئی اک لاش ہُنر لگتا ہے
سوچتا ہوں کسی آسیب کا سایہ ہی نہ ہو
دل مِرا کس لیے اُجڑا ہُوا گھر لگتا ہے
غیر کی ذات سے کچھ خوف نہیں ہے لیکن
اپنے اندازِ محبت سے ہی ڈر لگتا ہے
ہم نے سمجھا تھا جسے دوست فرشتوں جیسا
اپنے اعمال سے توہینِ بشر لگتا ہے
بربط تونسوی
No comments:
Post a Comment