شور احساس میں ایسا ہے کہ محشر کہیے
ہر نئے شہر کو چیخوں کا سمندر کہیے
دن کا صحرا یہ سیہ دھوپ کے امنڈے لشکر
دل کو تپتے ہوئے نیزے پہ گلِ تر کہیے
نم سہی پھر بھی تو مرجھا گئے جھیلوں میں کنول
ان ہواؤں کو دبی آگ کی چادر کہیے
رات دن برسے ہیں پھولوں میں مگر پیاس رہی
کیسے بادل ہیں انہیں زہر کی گاگر کہیے
درد بے درد ہے بے حس ہیں حسوں کے پیکر
دل کی آواز ہے شیشوں کو بھی پتھر کہیے
فکر و غم سب کے مکانوں میں بسے ہیں یکساں
شیش محلوں کو مرے گھر کے برابر کہیے
وہ جو آ جائیں محبت کا اجالا بن کر
چاند کو رنگ بھری رات کا جھومر کہیے
آسماں پر ہے یہ اسرار زمیں پر ہی کبھی
دل کو آفاق میں اڑتا ہوا شہ پر کہیے
اسرار اکبرآبادی
سید اسرار حسین
No comments:
Post a Comment