ختم ہونے کو ہے اب احساس کا گونگا سفر
ہیں نگاہوں میں صدا دیتے ہوئے دیوار و در
ان نہ خوف راہزن ہے کچھ نہ شوقِ راہبر
بڑھ رہے ہیں ہم رہِ منزل پہ بے خوف و خطر
بھر گیا ساری عبارت میں جو رنگِ دلکشی
لشکرِ الفاظ میں وہ ایک حرفِ معتبر
وائے نادانی وہی تھا گوشۂ دل میں مکیں
جستجو میں جس کی سرگرداں رہے ہم عمر بھر
بارہا یہ معجزہ دیکھا ہے ہم نے دوستو
لائے ہیں اہلِ جنوں اہلِ خِرد کو راہ پر
راہئ گم گشتہ کو دیتا ہے اکثر حوصلہ
دور تک پھیلے ہوئے صحرا کا وہ تنہا شجر
خامشی کا دور دورہ موت کی وادی میں ہے
زندگی کے راستے پر ہمقدم ہیں شور و شر
ہے عمل پیرائی میں گوہر وقارِ زندگی
نالہ و فریاد کرنا ہے یقیناً بے اثر
کلدیپ گوہر
No comments:
Post a Comment