آنکھ نم ہے نہ دل فگار اپنا
اٹھ گیا خود سے اعتبار اپنا
ذکر ہوتا ہے بار بار اپنا
ٹوٹتا ہی نہیں خمار اپنا
دیکھنا چاہتے ہو یار اپنا
توڑئیے پہلے یہ حصار اپنا
یاد کرتے رہے تجھے جب تک
وقت گزرا ہے خوشگوار اپنا
دے دیا ہم نے اپنے ہاتھوں سے
غیر کے بس میں اختیار اپنا
ہر تنک تاب پر مچل جائے
اتنا ارزاں نہیں ہے پیار اپنا
بے خبر ہو گیا وہی ہم سے
جس کو رہتا تھا انتظار اپنا
ہے یہی آرزو مِرے مالک
حشر میں تُو مجھے پکار اپنا
نیاز گلبرگوی
No comments:
Post a Comment