Friday, 20 December 2024

گزر گیا جو گزرنا تھا دور بے خبری

 گزر گیا جو گزرنا تھا دور بے خبری

وہ بے نیاز ہی ہو کر ملا، ملا تو سہی

خطا معاف نہ یہ طنز ہے نہ بے ادبی

وہی تو عرض کیا ہے کہ جو حقیقت ہے

اس آگہی سے تو بہتر ہے دورِ بے خبری

شعور آیا تو ذہنوں پہ چھا گئی پستی

نہ اب کلی کا تبسم نہ اب گلوں کی ہنسی

خدا کرے نہ پھر ایسی بہار آئے کبھی

کچھ اعتبارِ وفا تو ہوا ادھر پیدا

کسی کے کام تو آئی ہماری کم سخنی

کبھی نظر سے گرایا، کبھی نواز دیا

یہ میری کم نظری ہے کہ تیری کم نظری


گوہر عثمانی

No comments:

Post a Comment