گزر گیا جو گزرنا تھا دور بے خبری
وہ بے نیاز ہی ہو کر ملا، ملا تو سہی
خطا معاف نہ یہ طنز ہے نہ بے ادبی
وہی تو عرض کیا ہے کہ جو حقیقت ہے
اس آگہی سے تو بہتر ہے دورِ بے خبری
شعور آیا تو ذہنوں پہ چھا گئی پستی
نہ اب کلی کا تبسم نہ اب گلوں کی ہنسی
خدا کرے نہ پھر ایسی بہار آئے کبھی
کچھ اعتبارِ وفا تو ہوا ادھر پیدا
کسی کے کام تو آئی ہماری کم سخنی
کبھی نظر سے گرایا، کبھی نواز دیا
یہ میری کم نظری ہے کہ تیری کم نظری
گوہر عثمانی
No comments:
Post a Comment