وابستہ ہو گئے ہیں تِرے آستاں سے ہم
اٹھے تو جان دے کے اٹھیں گے یہاں ہم
تقسیم بادہ میں ہے یہ تخصیص کس لیے؟
موقع ملا تو پوچھیں گے پیرِ مغاں سے ہم
ترتیب دے چکے ہیں محبت کی داستاں
یہ سوچتے ہیں ان کو سنائیں کہاں سے ہم
ان سے ملے نظر تو سنا دیں نگاہ سے
وہ داستاں جو کہہ نہیں سکتے زباں سے ہم
پائیں اگر اشارہ تمہاری نگاہ کا
جنت اتار لائیں ابھی آسماں سے ہم
ممکن ہے تیرا جلوہ نظر آ سکے ہمیں
ہٹ جائیں آپ خود ہی نہ کیوں درمیاں سے ہم
موسیٰ ہوا ہے جب سے حقیقت کا نکشاف
رہتے ہیں دور سرحدِ وہم وگماں سے ہم
محمد موسیٰ ساگری بھوپالی
No comments:
Post a Comment