Monday, 30 December 2024

خراب و خستہ سا دن خستہ و خراب سی شام

 خراب و خستہ سا دن، خستہ و خراب سی شام

وہی فراق سا منظر،۔ وہی عذاب سی شام

مِرا نصیب تھی اے جاں، یہ خار خار سی رات

تِری جُدائی نے چن لی مِری گُلاب سی شام

ابھی تو پاؤں نہ رکھا تھا میں نے پانی میں

مِرے گھڑے سے لپٹنے لگی چناب سی شام

اُتر گیا ہے مِرا دن تو شب کے دریا میں

سفر میں رکھے گی تا صبح اب سراب سی شام

یہ کشمکش ہی سبب ہے جمالِ ہستی کا

کبھی چمکتا سویرا، کبھی نقاب سی شام

ہوا نہ بڑھ کے بڑھا دے چراغ ہجر کی لو

نہ ڈھونڈ کُوئے ندامت میں اب وہ خواب سی شام


بابر جاوید

No comments:

Post a Comment