درد کی برسات کے رت جگے اچھے لگے
جو گلے مِل کر کیے شکوے گِلے اچھے لگے
پھُوٹ کر پیروں کے روتے آبلے اچھے لگے
رنج و غم میں قہقہوں کے تذکرے اچھے لگے
ساتھ گُزرے تھے وہ جتنے مرحلے اچھے لگے
تم تھے جن پر ہمسفر وہ راستے اچھے لگے
آپ کی تصویر سے ہی کہہ دیا تھا دل کا حال
ہم کو تنہائی میں ایسے مشغلے اچھے لگے
جو چلے ہیں پیار کی راہوں پہ ان کو دوستو
درد کی باراتِ غم کے قافلے اچھے لگے
اپنی ہر اک بات کا کرتے ہیں خود ہی فیصلہ
آج کل بچوں میں اتنے حوصلے اچھے لگے
وادیاں جھرنے پہاڑوں کی حسیں یہ چوٹیاں
دور تک پھیلے ہوئے یہ سلسلے اچھے لگے
کرشن پرویز
ہری کرشن تھاپر
No comments:
Post a Comment