سویرے گھر چلا جاؤں تو بستر کاٹ سکتا ہے
بتاؤں میں تمہیں کیسے مجھے گھر کاٹ سکتا ہے
تحیّر پیش کرنا اس کے مسلک میں نہیں شامل
بندھی زنجیر کو خود بھی قلندر کاٹ سکتا ہے
ابھی یہ مُنکشف اس پر نہیں یہ میرے حق میں ہے
مجھے وہ میرے ہی جُملے سے بہتر کاٹ سکتا ہے
نہ کر پانی سے ہی پیوند کاری کشتیٔ جاں کی
بھنور کے بیچ جاتے ہی سمندر کاٹ سکتا ہے
بندھی ہے آنکھ پر پٹی تو ہے تلوار ہاتھوں میں
کوئی بھی اب مِرے بازو مِرے سر کاٹ سکتا ہے
لگا کر گھات بیٹھا ہے بدن کے ایک گوشے میں
لہو کی نہر کوئی میرے اندر کاٹ سکتا ہے
رونق شہری
عبدالغفار خاں
No comments:
Post a Comment