زندگی تجھ سے رابطہ نہ ہُوا
پھر بھی مجھ کو کبھی گِلہ نہ ہوا
یہ تو ہر دور کی کہانی ہے
ساتھ سچ کے کوئی کھڑا نہ ہوا
کیا شکایت کروں زمانے سے
میرا سایہ ہی جب مِرا نہ ہوا
زخم پر زخم ہی دئیے اس نے
پھر بھی اس سے یہ دل خفا نہ ہوا
ہیر رانجھا ہوں یا سسّی پُنوں
عشق میں کون باؤلا نہ ہوا؟
یوں بہت کچھ تھا چل رہا دل میں
اس سے کہنے کا حوصلہ نہ ہوا
جب سے وہ دُور ہو گیا مجھ سے
ایک لمحے کو بھی جُدا نہ ہوا
اُڑ گئے شاخ سے پرندے جب
یہ چمن پھر کبھی ہرّا نہ ہوا
کھیل مدھومن ہیں یہ نصیبوں کے
ورنہ چاہے سے اس کے کیا نہ ہوا
مدھو مدھومن
No comments:
Post a Comment