Monday, 16 December 2024

ہمسفر ہو کے مجھے شاد تو کر سکتے ہیں

 ہمسفر ہو کے مجھے شاد تو کر سکتے ہیں

خشک پتے بھی یہ امداد تو کر سکتے ہیں

سوچ کر یہ ہی چمن زار میں آ جاتا ہوں

بُوئے محرم یوں تجھے یاد تو کر سکتے ہیں

گو شکستہ ہے شبستان تمنا کو مگر

ٹُوٹے خوابوں سے بھی آباد تو کر سکتے ہیں

لب کریں شکوۂ غم یہ بھی ضروری تو نہیں

گُل کی مانند بھی فریاد تو کر سکتے ہیں

جرم لگتی ہے تِرے بعد رہائی، ورنہ

دل کے پنچھی کو یوں آزاد تو کر سکتے ہیں

لطف نیرنگئ دنیا بھی چلا جاتا کہ ہم

جشنِ ناکامئ شداد تو کر سکتے ہیں


ریاض فاروقی

No comments:

Post a Comment