ہمسفر ہو کے مجھے شاد تو کر سکتے ہیں
خشک پتے بھی یہ امداد تو کر سکتے ہیں
سوچ کر یہ ہی چمن زار میں آ جاتا ہوں
بُوئے محرم یوں تجھے یاد تو کر سکتے ہیں
گو شکستہ ہے شبستان تمنا کو مگر
ٹُوٹے خوابوں سے بھی آباد تو کر سکتے ہیں
لب کریں شکوۂ غم یہ بھی ضروری تو نہیں
گُل کی مانند بھی فریاد تو کر سکتے ہیں
جرم لگتی ہے تِرے بعد رہائی، ورنہ
دل کے پنچھی کو یوں آزاد تو کر سکتے ہیں
لطف نیرنگئ دنیا بھی چلا جاتا کہ ہم
جشنِ ناکامئ شداد تو کر سکتے ہیں
ریاض فاروقی
No comments:
Post a Comment