گو خوشی بھی ہم کو راس آئی بہت
لیکن اس نے آگ برسائی بہت
کیا کِیا تُو نے سکونِ زندگی؟
بُھولنے والے کی یاد آئی بہت
شکریہ تیرا ہجومِ حادثات
بڑھ چلی تھی میری تنہائی بہت
اپنے ہی ہاتھوں سے بکھرے اپنے خواب
ہم نے جینے کی سزا پائی بہت
جانے کیا سوچا مِری آواز نے
گنبدِ بے در سے ٹکرائی بہت
کیوں ہوئے نازل ہمیں پر سب عذاب
زندگی کے تھے تماشائی بہت
جب ہوئے آسودۂ منزل صبا
یاد آئی آبلہ پائی بہت
صبا جائسی
کبیر احمد
No comments:
Post a Comment