Tuesday, 17 December 2024

تنہا تنہا اپنی ذات

 تنہا تنہا اپنی ذات

کس کو سنائیں دل کی بات

پلکوں پلکوں دِیپ جلے

کتنی روشن ہے یہ رات

برسوں بِیتے اب وہ کہاں

پھر بھی جیسے کل کی بات

ایک فریبِ حُسنِ نگاہ

اپنی ہستی اپنی ذات

یاد کسی کی آئی یوں

نیند نہ آئی ساری رات

فیضی دل پر کیا الزام

اپنے اپنے من کی بات


فیضی نظام پوری

No comments:

Post a Comment