تنہا تنہا اپنی ذات
کس کو سنائیں دل کی بات
پلکوں پلکوں دِیپ جلے
کتنی روشن ہے یہ رات
برسوں بِیتے اب وہ کہاں
پھر بھی جیسے کل کی بات
ایک فریبِ حُسنِ نگاہ
اپنی ہستی اپنی ذات
یاد کسی کی آئی یوں
نیند نہ آئی ساری رات
فیضی دل پر کیا الزام
اپنے اپنے من کی بات
فیضی نظام پوری
No comments:
Post a Comment