غم دے کے غمگسار ہوئے بھی تو کیا ہوئے
تڑپا کے بے قرار ہوئے بھی تو کیا ہوئے
کرنا تھا داغ بن کے کسی دل میں روشنی
شمع سر مزار ہوئے بھی تو کیا ہوئے
ہونا تھا آپ اپنے چمن میں شگوفہ کار
شرمندۂ بہار ہوئے بھی تو کیا ہوئے
مٹتے کسی کے عشق میں اے دل تو بات تھی
برباد روزگار ہوئے بھی تو کیا ہوئے
دل بھی ہے پاش پاش سفینہ بھی پاش پاش
طوفان غم سے پار ہوئے بھی تو کیا ہوئے
ویرانیاں دیار محبت میں ہیں وہی
تم غیرت بہار ہوئے بھی تو کیا ہوئے
ہیں سرنگوں ہنوز تمہارے نیاز مند
تم اہل اختیار ہوئے بھی تو کیا ہوئے
سینے میں دل کے نام سے اب خاک بھی نہیں
اب آپ شرمسار ہوئے بھی تو کیا ہوئے
ہنس ہنس کے جھیلنا ہے ہر افتاد شوق کو
رو رو کے کامگار ہوئے بھی تو کیا ہوئے
ہے سامنا فریب محبت کا ہر نفس
اک ان سے ہوشیار ہوئے بھی تو کیا ہوئے
برہم اگر سکون دو عالم نہ ہو سکا
یوں حسن پر نثار ہوئے بھی تو کیا ہوئے
ہے زندگی ادیب کی اب بھی حجاب میں
ہم اس کے راز دار ہوئے بھی تو کیا ہوئے
ادیب مالیگانوی
محمد بشیر
No comments:
Post a Comment