اثر کیا لبِ خاموش نے زباں کی طرح
بکھر گیا مِرا ہر اشک داستاں کی طرح
کیے ہیں تُو نے ستم جورِ آسماں کی طرح
جو امتحان لیے مجھ سے امتحاں کی طرح
کہاں ٹھکانہ بناؤں گا اپنا اے صیاد؟
قفس بھی راس نہ آیا جو آشیاں کی طرح
شبِ وصال ہے جی بھر کے مسکرانے دو
بہار آئی چمن میں مِرے خزاں کی طرح
مِری تو گردشِ پا سے ازل سے قسمت میں
زمیں بھی گھومتی ہے دور آسماں کی طرح
کہیں پہ منزلِ عاشق سفر میں خود تو نہیں
نظر میں رہتی ہے کیوں بحرِ بیکراں کی طرح
کہوں تو کیسے کہوں ان سے حالِ دل اے پریم
زبان رکھتا ہوں جب اپنی بے زباں کی طرح
پریم رنگپوری
No comments:
Post a Comment