Saturday, 11 January 2025

راہ کی گرد سے منزل کا پتہ لگ جائے

 راہ کی گرد سے منزل کا پتہ لگ جائے

جب تعاقب میں کوئی حرفِ دعا لگ جائے

جسم کی قید میں ہوتی ہے گھٹن سی اس کو

روح کو تھوڑی سے باہر کی ہوا لگ جائے

خون سے ہاتھ بھرے ہیں تو چھپانا کیسا

یہ بھی ممکن ہے کہ یہ رنگِ حنا لگ جائے

مختلف رنگ میں نظروں سے گزر جاتا ہوں

کون جانے کہ اسے کیسی ادا لگ جائے

جس کو لوگوں نے ہر اک دور میں برتا ہے نثار

میری کوشش کہ وہی مضموں نیا لگ جائے


نثار راہی

No comments:

Post a Comment