Saturday, 11 January 2025

دل سی ویرانی میں سایہ کوئی مہمان تو ہے

 دل سی ویرانی میں سایہ کوئی مہمان تو ہے

اپنے خوابوں سے ملاقات کا امکان تو ہے

کچھ نہ کچھ نذر تو کرنا ہے ترے جلوے کو

اور دولت نہ سہی کوئی دل و جان تو ہے

کیا ملے گا ہمیں اب اس کی پشیمانی سے

بے وفائی پہ کوئی اپنی پشیمان تو ہے

یوں نہ ہو خود سے نبھانا تمہیں مشکل ہو جائے

ہم کو نظروں سے گرانا بہت آسان تو ہے

قافلے والوں کو گمراہی کا احساس ہوا

کم سے کم اب کسی انجام کا امکان تو ہے


مشتاق نقوی

No comments:

Post a Comment