نظریں گم صم دیوار و در بول رہے ہیں
سناٹے ہر گھر کے اندر بول رہے ہیں
آوازوں کا شور سنائی کیسے دے
خاموشی کے کتنے پیکر بول رہے ہیں
شاید پھر یادوں کا موسم آنا ہے
زخم پرانے دل کے اندر بول رہے ہیں
رستے چلتے ہم نے یہ محسوس کیا
لوگوں کی آنکھوں میں خنجر بول رہے ہیں
دوآبہ تو جانے کب کا سُوکھ چُکا
لیکن دل میں ابھی سمندر بول رہے ہیں
اس کے رہنے سے تھا دل آباد نثار
اس بستی میں اب تو بس ڈر بول رہے ہیں
نثار راہی
No comments:
Post a Comment