حاصل کو تشنگی کا مقدر لکھوں گا میں
اب ریگزارِ جاں کو سمندر لکھوں گا میں
لوں گا جمالیات میں اپنے ضمیر سے
سنگِ سیاہ کو بھی گُلِ تر لکھوں گا میں
مجھ کو جو ڈھونڈ لائے میں اس کا غلام ہوں
اک دن یہ اشتہار سڑک پر لکھوں گا میں
برفیلی رات میں کسی قالین سبز پر
اس مرمریں بدن کو صنوبر لکھوں گا میں
اے دوست! اپنے فرض سے غافل نہیں ہنوز
سویا تو آدھی رات کو اٹھ کر لکھوں گا میں
ڈکشن تو ایک ہی ہے غزل کا، مگر نظام
جپتے رہیں گے لوگ وہ منتر لکھوں گا میں
نظام الدین نظام
No comments:
Post a Comment