بہ فیض عشق ہم نے جب خرد کا راستہ بدلا
مذاقِ زندگی کے ساتھ دل کا مُدعا بدلا
سکونِ دل کی خاطر آج اندازِ وفا بدلا
مِری صورت بدل جانے سے دل کا مُدعا بدلا
محبت ہی محبت ہے جدھر دیکھو زمانے میں
مِری قسمت کہ ان ہاتھوں میں پھر رنگِ حِنا بدلا
محبت کی یہ رُسوائی خدا جانے کہاں تک ہو
اگر مجبورِ غم ہو کر کوئی غم آشنا بدلا
کچھ اس انداز سے پہلو میں لی ہے دل نے انگڑائی
مزاجِ اشک غم ہائے بہ عنوانِ حِنا بدلا
سُنا تو ہے بدل جاتی ہیں روز و شب سے تقدیریں
خدا جانے نہ کیوں اب تک کلیمِ بے نوا بدلا
کلیم سرونجی
No comments:
Post a Comment