ہجر ہو یا وصال کچھ تو ہو
یا خدا! اب کے سال کچھ تو ہو
مشتہر تُو بھی ہو زمانہ میں
میرے غم کی مثال کچھ تو ہو
یہ جو دِکھتا ہے کیا حقیقت ہے
آئینے سے سوال کچھ تو ہو
آج کوئی غزل ہی کہتے ہیں
درد کا استعمال کچھ تو ہو
ٹھیک ہے مانتا ہوں گہرا ہے
زخم کا اندمال کچھ تو ہو
اختلاف اور بات ہے لیکن
وہ میرا ہم خیال کچھ تو ہو
میرے دل کو تباہ کرنے کا
اس کے دل کو ملال کچھ تو ہو
سب عطیہ اس کا ہے کافر
اس میں تیرا کمال کچھ تو ہو
جگجیت کافر
No comments:
Post a Comment