تمہارے چہرے پہ دھیان ایسے ٹکا ہوا ہے
تمام سمتوں کو ایک جانب رکھا ہوا ہے
ہرے درختوں سے بیلیں کیسے لپٹ رہی ہیں
زمین پر آسمان کیسے جھکا ہوا ہے
وہ ایک لڑکی جو مر رہی ہے حیا کے مارے
وہ ایک لڑکا جو دیکھنے پر تلا ہوا ہے
شب وصال اس کا سرخ آنچل مصلیٰ کر کے
بدن وظیفے کا ورد جاری رکھا ہوا ہے
تو صرف وحشت کے دم پہ دل دشت میں نا آنا
یہ اسم بھی رائیگاں ہے میرا پڑھا ہوا ہے
پھر اس کے بعد اس نے میری آنکھیں بھی گیلی کر دیں
میں پوچھ بیٹھا تھا تیری آنکھوں کو کیا ہوا ہے
یہ وقت مغرب سے قبل کا آفتاب سرمد
یہ اس کے ہاتھوں میں کیسے کیسے لگا ہوا ہے
نعیم سرمد
No comments:
Post a Comment