Thursday, 9 January 2025

تمہارے چہرے پہ دھیان ایسے ٹکا ہوا ہے

 تمہارے چہرے پہ دھیان ایسے ٹکا ہوا ہے 

تمام سمتوں کو ایک جانب رکھا ہوا ہے 

ہرے درختوں سے بیلیں کیسے لپٹ رہی ہیں 

زمین پر آسمان کیسے جھکا ہوا ہے 

وہ ایک لڑکی جو مر رہی ہے حیا کے مارے 

وہ ایک لڑکا جو دیکھنے پر تلا ہوا ہے 

شب وصال اس کا سرخ آنچل مصلیٰ کر کے 

بدن وظیفے کا ورد جاری رکھا ہوا ہے 

تو صرف وحشت کے دم پہ دل دشت میں نا آنا 

یہ اسم بھی رائیگاں ہے میرا پڑھا ہوا ہے 

پھر اس کے بعد اس نے میری آنکھیں بھی گیلی کر دیں 

میں پوچھ بیٹھا تھا تیری آنکھوں کو کیا ہوا ہے 

یہ وقت مغرب سے قبل کا آفتاب سرمد

یہ اس کے ہاتھوں میں کیسے کیسے لگا ہوا ہے


نعیم سرمد

No comments:

Post a Comment