منظر اک اور بھی پس منظر لگا مجھے
دیکھا جو آئینہ تو بہت ڈر لگا مجھے
اے یارِ خوش خرام! تکلف نہ کر کہ میں
پتھر ہوں تیری راہ کا، ٹھوکر لگا مجھے
کیا لوچ، کیا سبھاؤ ہے، دے اور گالیاں
لہجہ تِرا تو اور بھی سُندر لگا مجھے
صر صر پہ بھی گُمان ہے بادِ نسیم کا
صحرا بھی تشنگی کا سمندر لگا مجھے
اتنا شدید وار تو اپنا ہی کر سکے
دُشمن تو دُشمنی میں برادر لگا مجھے
دل میں جو بات ہے وہی لب پر نعیم کے
یہ شخص کچھ عجیب سخنور لگا مجھے
نعیم حامد علی
No comments:
Post a Comment