اب کوئی بات بڑھانے کی ضرورت نہ رہی
حال دل ان کو سنانے کی ضرورت نہ رہی
مسئلے ہو گئے بے رخ ہی سیاست کے شکار
کوئی آواز اٹھانے کی ضرورت نہ رہی
قافلے درد کے خود دل سے گزر جاتے ہیں
راستے ان کو دکھانے کی ضرورت نہ رہی
وقت وہ ہے کہ ہوئے دونوں انا سے سرشار
زندگی ساتھ نبھانے کی ضرورت نہ رہی
اپنے آنگن میں ملے ہم کو مقفل رشتے
کوئی دیوار اٹھانے کی ضرورت نہ رہی
اپنی فطرت سے اثر وہ بھی شناور نکلا
تیرنا اس کو سِکھانے کی ضرورت نہ رہی
اثر نظامی
No comments:
Post a Comment