Wednesday, 1 January 2025

رکنا پڑے گا اور بھی چلنے کے نام پر

 رکنا پڑے گا اور بھی چلنے کے نام پر

گرتی رہے گی خلق سنبھلنے کے نام پر

پھنستا گیا ہوں اور نکلنے کی سعی میں

آفت مزید آئی ہے ٹلنے کے نام پر

یہ کیا طلسم ہے کہ ابھرنے کے شوق میں

آواز دب گئی ہے نکلنے کے نام پر

دل کا شجر تو اور بھی پلنے کی آڑ میں

مرجھا گیا ہے پھولنے پھلنے کے نام پر

وہ جا چکا ہے اور بدن کے نواح میں

اب جم رہی ہے برف پگھلنے کے نام پر

بدلے گا کوئی روز نئے پن کے شوق میں

یکساں رہے گا کوئی بدلنے کے نام پر

معنی کا سبزہ گاہ نظر آ گیا تو پھر

بھڑکے گا لفظ شعر میں ڈھلنے کے نام پر

معنی کا سبزہ گاہ نظر آ گیا تو پھر

بھڑکے گا لفظ شعر میں ڈھلنے کے نام پر


ندیم احمد

No comments:

Post a Comment