پھول بنتی ہے نکل کر لب اظہار سے بات
ہم نے چھیڑی ہے بھری بزم میں کس پیار سے بات
دل جلانے سے ملا کرتا ہے کس طرح سکوں
آؤ کر لیں نا ذرا آتشِ رُخسار سے بات
وہ نہ آئے بھی اگر دل تو بہل جائے گا
اور کچھ دیر کریں سایۂ دیوار سے بات
کون ہے دے سکے جو آبلہ پائی کو سکوں
ہم تو تھک ہار گئے کر کے ہر اک خار سے بات
چاند تاروں کی خموشی تو نہ ٹوٹے گی صبا
کون کرتا ہے یہاں دیدۂ بیدار سے بات
صبا جائسی
کبیر احمد
No comments:
Post a Comment