دورِ آزادی
لب پہ بھولے سے مسرت کا نہ لے نام ابھی
دل کو گھیرے ہے ہجومِ غم و آلام ابھی
ہے وہی کشمکشِ گردشِ ایام ابھی
وہی دن رات وہی ہیں سحر و شام ابھی
وہی صیاد ہے بدلا ہوا ہے نام تو کیا
ہر تر و خشک میں پھیلا ہوا ہے دام ابھی
وہی قاتل ہے، وہی معرکۂ دار و رسن
وہی ہر بات میں ہے موت کا پیغام ابھی
کوٹھیوں میں امراء کی ہے وہی رقص و سرود
غرباء کے گھروں میں وہی کہرام ابھی
وہی سرمایہ پرستی ہے، وہی زر طلبی
ہے وہی بے خودئ راحت و آرام ابھی
ہے وہی تنگ نگاہی، ہے وہی سنگ دلی
ہے وہی ملک میں غارت گرئ عام ابھی
اک طرف ڈُوبے ہوئے مُرغِ مسلّم گھی میں
اک طرف ہوتا ہے فاقہ سحر و شام ابھی
اک طرف گرم لحافوں میں ہے سردی کا بچاؤ
اک طرف پاتھ پہ ہیں کچھ لرزہ بر اندام ابھی
اے فلک تُو جو دکھاتا ہے وہ ہم دیکھتے ہیں
دیکھنا ہے مگر اس دور کا انجام ابھی
علامہ سریر کابری
No comments:
Post a Comment