سرخی شب سیہ پہ لگا کر بھی دیکھیے
جُوڑے میں اس کے پھُول سجا کر بھی دیکھیے
شعلہ کسی کے قُرب کا لپکے ہے بار بار
اس آگ میں بدن کو جلا کر بھی دیکھیے
آتش کدے کے پاس سے اُٹھیے گا بھی ذرا
ٹھنڈی ہوا کا لطف اُٹھا کر بھی دیکھیے
بیدار ہو کے دیکھیے خوابوں کا ارتعاش
پتھر کو پانیوں پہ گِرا کر بھی دیکھیے
اب تک ہے درج اس پہ جہانگیر اس کا نام
دل کے ورق کو آپ اُٹھا کر بھی دیکھیے
علیم جہانگیر
No comments:
Post a Comment