Friday, 10 January 2025

دوست کوئی جو معتبر نہ رہا

 دوست کوئی جو معتبر نہ رہا

اعتبار اپنے آپ پر نہ رہا

راہبر سے جو بے خبر نہ رہا

راہزن کا اسی کو ڈر نہ رہا

فصل آئی ہے جب سے پت جھڑ کی

سایہ والا کوئی شجر نہ رہا

خاکساری میں ہو گیا مشہور

کج کلاہی لیے جو سر نہ رہا

آن رکھ کر وہ جان سے کھیلا

مات کھانے کا جس کو ڈر نہ رہا

جس میں صدیاں سما گئیں وہ سخن

مختصر ہو کے مختصر نہ رہا

آدمی کی کمی نہیں نادم

آدمیت لیے بشر نہ رہا


نادم بلخی

No comments:

Post a Comment