دوست کوئی جو معتبر نہ رہا
اعتبار اپنے آپ پر نہ رہا
راہبر سے جو بے خبر نہ رہا
راہزن کا اسی کو ڈر نہ رہا
فصل آئی ہے جب سے پت جھڑ کی
سایہ والا کوئی شجر نہ رہا
خاکساری میں ہو گیا مشہور
کج کلاہی لیے جو سر نہ رہا
آن رکھ کر وہ جان سے کھیلا
مات کھانے کا جس کو ڈر نہ رہا
جس میں صدیاں سما گئیں وہ سخن
مختصر ہو کے مختصر نہ رہا
آدمی کی کمی نہیں نادم
آدمیت لیے بشر نہ رہا
نادم بلخی
No comments:
Post a Comment