Thursday, 2 January 2025

تماشائے الم ہے اور میں ہوں

 تماشائے الم ہے اور میں ہوں

خوشی کے ساتھ غم ہے اور میں ہوں

زمانے کا ستم ہے اور میں ہوں

یہ سب ان کا کرم ہے اور میں ہوں

رہ حق پر قدم ہے اور میں ہوں

سرِ اخلاق خم ہے اور میں ہوں

ابھی کیسے کہوں صبحِ بہاراں

ابھی تو شامِ غم ہے اور میں ہوں

کہیں بزمِ نشاط عیش و عشرت

کہیں پر چشمِ نم ہے اور میں ہوں

بدل ڈالوں نظام زندگی یہ

بڑی مشکل میں دم ہے اور میں ہوں

کسی لمحہ بھڑک کر بُجھ نہ جائے

چراغ صبح دم ہے اور میں ہوں

مجھے تنہا نہ سمجھو میرے ہمدم

ہجومِ رنج و غم ہے اور میں ہوں


ہمدم صدیقی

No comments:

Post a Comment