جہان خود غرض میں کون کس کے کام آتا ہے
جو کام آتا ہے تو تنہا دلِ💔 ناکام آتا ہے
ہوا ہے اور نہ ایسا ہو گا اب خونریز عالم میں
لہو دیتی ہے دل کی رگ جب ان کا نام آتا ہے
لُنڈھائیں خُم کے خُم سیراب اور پیاسوں کے حصے میں
صُراحی ہے نہ مِینا ہے، نہ کوئی جام🍷 آتا ہے
نہ ہو ایسا تو وِیرانے کبھی برباد ہی کیوں ہوں
کہاں آغازِ اُلفت میں نظر انجام آتا ہے
رہِ اُلفت میں پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں برسوں تک
خلش میں خار کی لذت کا تب ہنگام آتا ہے
خدا معلوم کچھ دن سے مجھے کیا ہو گیا واصف
کہ جب آتا ہے لب پر ایک اب نام آتا ہے
واصف رودولوی
No comments:
Post a Comment