جہاں نفاق کے شعلے ملیں بُجھا کے چلو
چراغ امن و محبت کا تم جلا کے چلو
تمہارے بعد بھی آئیں گے قافلے یارو
ملیں جو راہ میں کانٹے انہیں ہٹا کے چلو
ابھی تو کام انہیں بھی بہت سے کرنے ہیں
نمود صبح ہے سوتوں کو بھی جگا کے چلو
اشارہ وقت کا یہ ہے کہ اے جہاں والو
نیاز و ناز کی تفریق کو مٹا کے چلو
مزا تو ہنسنے کا جب ہے کہ اپنے ساتھ ذرا
غمِ زمانہ کے ماروں کو بھی ہنسا کے چلو
پہاڑ روک لیں رستہ تو کوہ کن بن جا
جو راہ میں دریا تو پُل بنا کے چلو
تمہیں بھی زندگیٔ جاوداں میسر ہو
وفا کی راہ میں دل کو اگر مٹا کے چلو
ملے ہیں ہوش و خرد اس لیے تمہیں ساقی
جنوں کی راہ میں ہوش و خِرد لُٹا کے چلو
ساقی لکھنوی
اولاد علی رضوی
No comments:
Post a Comment