Sunday, 2 February 2025

لاکھ گرتے ہیں پھر سنبھلتے ہیں

 لاکھ گرتے ہیں، پھر سنبھلتے ہیں

اہلِ حق مُشکلوں میں پلتے ہیں

اپنی شدت پہ جب ہوائیں ہوں

تب ہمارے چراغ جلتے ہیں

حق پہ مرنا، ہماری موت نہیں

ہم فنا سے بقا میں ڈھلتے ہیں

سرفروشی ہے قوم کی معراج

ہم تو سُولی پہ بھی مچلتے ہیں

زندہ رہنا ہماری فطرت ہے

ہم سدا ڈوب کر نکلتے ہیں

ہم کو آتا ہے خار پر چلنا

راستے، ہم نہیں بدلتے ہیں

جب ہو فرعونیت کا دور خزاں

باغِ موسٰیؑ اُسی میں پھلتے ہیں

کھلتے ہیں، گلشنِ براہیمیؑ

آگ، نمرود جب اُگلتے ہیں

میری سُوکھی زمیں کو مت دیکھو

حق کے زمزم، یہیں اُبلتے ہیں

ہم چلے جب بھی متحد ہو کر

کوہ، باطل کے سب پِگھلتے ہیں

خود ہی دیتے ہیں راستے، طوفاں

جب سفینے ہمارے چلتے ہیں

اس پہ تاریخ پوری شاہد ہے

ظلم کا سر، ہمی کچلتے ہیں

کربلا، پھر بلا رہا  ہے ہمیں

اے فریدی، چلو نکلتے ہیں


فریدی مصباحی

No comments:

Post a Comment