Sunday, 2 February 2025

تھے بھی شاید کبھی مگر تو نہ تھے

 تھے بھی شاید کبھی مگر تو نہ تھے

مبتلا غم میں اس قدر مگر تو نہ تھے

ہم نے تنہا گزار دی اپنی

زندگی! تیرے ہمسفر مگر تو نہ تھے

جس قدر اب ہوئے ہیں ہم محدود

سلسلے اتنے مختصر مگر تو نہ تھے

جھومتے تھے تمہاری ٹہنی پر

ہم کسی اور شاخ پر مگر تو نہ تھے

مجھ پہ احسان ہے یہ اپنوں کا

اتنے الزام میرے سر مگر تو نہ تھے

کچھ نہ کچھ تھے تو ہم بھی آوارہ

عشق میں ایسے دربدر مگر تو نہ تھے

آرزو تھی اداس شاموں کی

خوگرِ مژدۂ سحر مگر تو نہ تھے

ہم اگر نام کے ہوئے بیمار

وہ بھی شہباز چارہ گر مگر تو نہ تھے


شہباز راجہ

No comments:

Post a Comment