تھے بھی شاید کبھی مگر تو نہ تھے
مبتلا غم میں اس قدر مگر تو نہ تھے
ہم نے تنہا گزار دی اپنی
زندگی! تیرے ہمسفر مگر تو نہ تھے
جس قدر اب ہوئے ہیں ہم محدود
سلسلے اتنے مختصر مگر تو نہ تھے
جھومتے تھے تمہاری ٹہنی پر
ہم کسی اور شاخ پر مگر تو نہ تھے
مجھ پہ احسان ہے یہ اپنوں کا
اتنے الزام میرے سر مگر تو نہ تھے
کچھ نہ کچھ تھے تو ہم بھی آوارہ
عشق میں ایسے دربدر مگر تو نہ تھے
آرزو تھی اداس شاموں کی
خوگرِ مژدۂ سحر مگر تو نہ تھے
ہم اگر نام کے ہوئے بیمار
وہ بھی شہباز چارہ گر مگر تو نہ تھے
شہباز راجہ
No comments:
Post a Comment