اٹھے گی ان کے چہرے سے نقاب آہستہ آہستہ
نظر آ جائے گا یہ انقلاب، آہستہ آہستہ
ہمیشہ عشق میں صبر و سکوں سے کام چلتا ہے
دلِ ناکام ہو گا کامیاب، آہستہ آہستہ
یہ رسوائی تو لازم تھی مگر اتنا کیا میں نے
ہوا رسوا زمانے میں شباب، آہستہ آہستہ
سوال ان کے تو اکثر برق رفتاری سے ہوتے ہیں
نکلتا ہے مِرے منہ سے جواب، آہستہ آہستہ
سنا دے فیصلہ جو کچھ بھی ہے اے داور محشر
نہ کر میرے گناہوں کا حساب، آہستہ آہستہ
تسلی ان کے ملنے سے بھی اب ہوتی نہیں دل کی
یہاں تک بڑھ گیا ہے اضطراب، آہستہ آہستہ
یہ پینا بھی ہے کیا پینا یہ بخشش بھی ہے کیا بخشش
پلائی مجھ کو ساقی نے شراب، آہستہ آہستہ
یہاں تک گفتگو میں تیز چلتی تھی زباں ان کی
یہ کہنا ہی پڑا مجھ کو جناب، آہستہ آہستہ
تنک ظرفوں کی صحبت راس آتی تا بہ کے اس کو
جہاں میں ہو گئی رسوا شراب، آہستہ آہستہ
پسند آئی ہمیں یہ بات ساحر جب کہا اس نے
وفاداروں کا ہو گا انتخاب، آہستہ آہستہ
ساحر سیالکوٹی
رگھبیر داس
No comments:
Post a Comment