Sunday, 3 August 2025

کتنا رنجیدہ تھا وہ اب کے جدا ہوتے ہوئے

 کتنا رنجیدہ تھا وہ اب کے جدا ہوتے ہوئے

جانے اس نے کیا کہا تھا مجھ سے پھر روتے ہوئے

اب تو وہ منظر بھی جیسے ہو گیا ہے خواب خواب

دیکھنا آغوشِ شب میں چاند کو سوتے ہوئے

کھلنے لگتے تھے مِرے احساس کے صحرا میں پھول

مسکرا دیتا تھا وہ جب بھی خفا ہوتے ہوئے

کر گیا سینے میں گھر وہ ایک عشقِ رائیگاں

مٹ گئے ہم آنسوؤں سے داغِ دل دھوتے ہوئے

ایک دن آئے گا فصلِ ہجر بھی کاٹیں گے ہم

تم نے یہ سوچا ہی کب تھا تلخیاں بوتے ہوئے

ڈھیر میں بھی ہو گیا پھر ڈوبتے سورج کے ساتھ

لمحہ لمحہ بجھ رہا تھا میں اسے کھوتے ہوئے


عرفان احمد

No comments:

Post a Comment