کتنا رنجیدہ تھا وہ اب کے جدا ہوتے ہوئے
جانے اس نے کیا کہا تھا مجھ سے پھر روتے ہوئے
اب تو وہ منظر بھی جیسے ہو گیا ہے خواب خواب
دیکھنا آغوشِ شب میں چاند کو سوتے ہوئے
کھلنے لگتے تھے مِرے احساس کے صحرا میں پھول
مسکرا دیتا تھا وہ جب بھی خفا ہوتے ہوئے
کر گیا سینے میں گھر وہ ایک عشقِ رائیگاں
مٹ گئے ہم آنسوؤں سے داغِ دل دھوتے ہوئے
ایک دن آئے گا فصلِ ہجر بھی کاٹیں گے ہم
تم نے یہ سوچا ہی کب تھا تلخیاں بوتے ہوئے
ڈھیر میں بھی ہو گیا پھر ڈوبتے سورج کے ساتھ
لمحہ لمحہ بجھ رہا تھا میں اسے کھوتے ہوئے
عرفان احمد
No comments:
Post a Comment