پھولوں سے رسم و راہ کیے جا رہا ہوں میں
امرت سمجھ کے زہر پئے جا رہا ہوں میں
اک انس ہو گیا ہے غم عاشقی کے ساتھ
دانستہ اک گناہ کیے جا رہا ہوں میں
جس کی مجھے زمانے سے قیمت نہ مل سکی
وہ کائنات درد لیے جا رہا ہوں میں
مانا کہ زندگی مری ناکام ہے مگر
کوئی تو بات ہے کہ جئے جا رہا ہوں میں
لاکھوں ستم ادھر سے ادھر ایک خامشی
دنیا کو اک پیام دئیے جا رہا ہوں میں
دیوانگی میں فرض شناسی نہیں گئی
دامان گل کے چاک سیے جا رہا ہوں میں
مظہر کسی کے چشم تغافل کے باوجود
امید التفات کیے جا رہا ہوں میں
حکیم مظہر سبحان عثمانی زخمی
No comments:
Post a Comment