بات ضد کی ہے سوال آئینہ خانے کا نہیں
تم بلاؤ گے بھی مجھ کو تو میں آنے کا نہیں
قرض کی شکل میں ہر سانس ادا ہوتی ہے
زندگی ہے یہ کوئی خواب دوانے کا نہیں
وقت کے جبر سے محفوظ نہ رہ پاؤ گے
حوصلہ تم میں اگر ضرب لگانے کا نہیں
لوٹنے والے مجھے تو بھی پشیماں ہوگا
گھر کا تخمینہ ہے نقشہ یہ خزانے کا نہیں
وقت معشوق نہیں ہے کہ منا لو گے اسے
روٹھ جائے گا تو پھر لوٹ کے آنے کا نہیں
گھر پہ آئے ہوئے مہمان سے منہ پھیرتے ہو
یہ طریقہ تو شریفوں کے گھرانے کا نہیں
ان ہواؤں کی اعانت بھی ضروری ہے شکیل
مسئلہ صرف چراغوں کو جلانے کا نہیں
شکیل ابن شرف
No comments:
Post a Comment