Monday, 4 August 2025

بات ضد کی ہے سوال آئینہ خانے کا نہیں

 بات ضد کی ہے سوال آئینہ خانے کا نہیں

تم بلاؤ گے بھی مجھ کو تو میں آنے کا نہیں

قرض کی شکل میں ہر سانس ادا ہوتی ہے

زندگی ہے یہ کوئی خواب دوانے کا نہیں

وقت کے جبر سے محفوظ نہ رہ پاؤ گے

حوصلہ تم میں اگر ضرب لگانے کا نہیں

لوٹنے والے مجھے تو بھی پشیماں ہوگا

گھر کا تخمینہ ہے نقشہ یہ خزانے کا نہیں

وقت معشوق نہیں ہے کہ منا لو گے اسے

روٹھ جائے گا تو پھر لوٹ کے آنے کا نہیں

گھر پہ آئے ہوئے مہمان سے منہ پھیرتے ہو

یہ طریقہ تو شریفوں کے گھرانے کا نہیں

ان ہواؤں کی اعانت بھی ضروری ہے شکیل

مسئلہ صرف چراغوں کو جلانے کا نہیں


شکیل ابن شرف

No comments:

Post a Comment