Saturday, 2 August 2025

پاس وفا کا مجھ کو احساس ہے یہاں تک

 پاس وفا کا مجھ کو احساس ہے یہاں تک

دل رو رہا ہے لیکن لب پر نہیں فغاں تک

کتنی روایتوں میں ترمیم ہو رہی ہے

پہنچا ہے جب سے انساں دہلیز آسماں تک

برسوں اٹھائے ہم نے احسان رتجگوں کے

برسوں کے بعد پہنچے ہم منصب فغاں تک

پیڑوں پہ شاخچوں کا پھر جسم ٹوٹتا ہے

پھر زہر حبس پھیلا ہر شاخ گلستاں تک

تاریکیوں میں شب کی جو دیپ جل رہے تھے

اس صبح نو میں ان کا ملتا نہیں دھواں تک

کتنے خلیق سائے اب دھوپ دے رہے ہیں

پہنچا ہوں جب سے ساغر میں ندرت بیاں تک


ساغر مشہدی

No comments:

Post a Comment