پاس وفا کا مجھ کو احساس ہے یہاں تک
دل رو رہا ہے لیکن لب پر نہیں فغاں تک
کتنی روایتوں میں ترمیم ہو رہی ہے
پہنچا ہے جب سے انساں دہلیز آسماں تک
برسوں اٹھائے ہم نے احسان رتجگوں کے
برسوں کے بعد پہنچے ہم منصب فغاں تک
پیڑوں پہ شاخچوں کا پھر جسم ٹوٹتا ہے
پھر زہر حبس پھیلا ہر شاخ گلستاں تک
تاریکیوں میں شب کی جو دیپ جل رہے تھے
اس صبح نو میں ان کا ملتا نہیں دھواں تک
کتنے خلیق سائے اب دھوپ دے رہے ہیں
پہنچا ہوں جب سے ساغر میں ندرت بیاں تک
ساغر مشہدی
No comments:
Post a Comment