Saturday, 2 August 2025

تجھ سے بچھڑ کے درد ترا ہمسفر رہا

 تجھ سے بچھڑ کے درد ترا ہمسفر رہا

میں راہ آرزو میں اکیلا کبھی نہ تھا

یہ اور بات رات جواں تھی جواں رہی

ساقی اداسیوں کے مجھے جام دے گیا

بازار وقت سے کہاں جنس وفا گئی

تنہا ہے ماہ مصر کا جلتا ہوا دیا

تاریک تھی یہ رات مگر یاد کی کرن

آئی تو نور حسن کا دروازہ پھر کھلا

حائل ہوئے دلوں پہ یہ انجانے فاصلے

پہلے ہمارے درمیاں کوئی فاصلہ نہ تھا

ہاتھوں میں رات آس کی شمعیں لیے ہوئے

تاریکیوں میں تجھ کو پکارا ہے بارہا

اے جنت خیال نگاہ فسوں شعار

قیصر کو اپنے گیسوؤں میں آج پھر چھپا


سید قیصر قلندر

No comments:

Post a Comment