Saturday, 2 August 2025

دوریاں ہی دوریاں ہیں قربتوں کے باوجود

 دوریاں ہی دوریاں ہیں قربتوں کے باوجود

اجنبی ہیں سب قریبی نسبتوں کے باوجود

رنگ و بو سے جان تو کاغذ میں پڑ سکتی نہیں

کاغذی گل کاغذی ہیں نکہتوں کے باوجود

سختیٔ صحرا نوردی ہی مسرت بخش ہے

دل نہیں لگتا قفس میں راحتوں کے باوجود

بے حسی بے غیرتی بھی جزو فطرت بن گئی

ہنس رہا ہوں انجمن میں ذلتوں کے باوجود

کر دیا بدنام یوسف سے فرشتے کو مگر

پاک دامن ہے زلیخا تہمتوں کے باوجود

کھول کر بیٹھا ہوں میں اب بھی محبت کی دکان

نفرتوں کے فائدے کی صنعتوں کے باوجود

برق سے ڈر کے نشیمن سے نہ اڑ کر جائیے

بیٹھے رہیے شاخ گل پر دہشتوں کے باوجود

ذہن میں برپا ہے کوثر محشرستان خیال

کب ہے تنہائی میسر خلوتوں کے باوجود


کوثر صدیقی

No comments:

Post a Comment