Saturday, 2 August 2025

یوں شہر کے بازار میں کیا کیا نہیں ملتا

 یوں شہر کے بازار میں کیا کیا نہیں ملتا

پر حسن میں ثانی کوئی تیرا نہیں نہیں ملتا

جو کچھ دل ناکام نے چاہا نہیں ملتا

منزل نہیں ملتی، کبھی رستا نہیں ملتا

لہجہ نہیں ملتا، کبھی چہرہ نہیں ملتا

دنیا میں ہمیں ایک بھی تم سا نہیں ملتا

چھوڑا ہے جو اک گھر کو تو دوجا نہیں ملتا

اب دل سا ترے کوئی ٹھکانہ نہیں ملتا

آتی ہے خوشی گر تو وہ ملتی ہے ادھوری

غم جب کبھی ملتا ہے اکیلا نہیں ملتا


صبیح الدین شعیبی

No comments:

Post a Comment