پکارا جا رہا ہے، پھر کسی کو قتل ہونا ہے
تو چلتا ہوں کہ اب تنہا مجھی کو قتل ہونا ہے
غبارِ تیرگی یوں حلقہ در حلقہ سمٹتا ہے
کہ اب اس شہرِ دل کی روشنی کو قتل ہونا ہے
امید اک ڈھونڈ ہی لیتے تھے اس دل کے خرابے میں
نگہداری کا اب دستور ہی کچھ اور ہے یعنی
فغاں آمادہ ہو جو بھی اسی کو قتل ہونا ہے
سرِ مقتل کسے زندہ کیا جائے یہاں، اب تو
کوئی باقی نہیں، لیکن کسی کو قتل ہونا ہے
پیر زادہ قاسم صدیقی
No comments:
Post a Comment