کیوں خرابات میں لافِ ہمہ دانی واعظ
کون سنتا ہے تِری ہرزہ بیانی واعظ
دفترِ وعظ کے نقطے بھی نہ ہوں گے اتنے
جتنے ہیں دل میں مِرے داغِ نہانی واعظ
سچ سہی جنت و دوزخ کا فسانہ، لیکن
بے وضو پائے خمِ بادہ کو چھو لیتا ہے
خاک آتی ہے تجھے مرتبہ دانی واعظ
نرم بھی دل سخنِ گرم سے اب تک نہ ہوا
دیکھ لی ہم نے تِری شعلہ بیانی واعظ
نیک و بد خوب سمجھتا ہوں کروں کیا کہ ابھی
سننے دیتا نہیں آشوبِ جوانی واعظ
رِندی و زہدِ ریائی میں ہیں دونوں یکتا
مثل میرا ہے نہ تیرا کوئی ثانی واعظ
یہ خرابات ہے جا خیر سے اپنے گھر کو
منہ کی کھلوائے نہ پھر تیز زبانی واعظ
آج سمجھا گئی کیا تجھ کو عبادت تیری
نہ رہا مشغلۂ اشک فشانی واعظ
اس قدر ہے جو دمِ نزع ہوس دنیا کی
ساتھ لے جائے گا کیا عالمِ فانی واعظ
رِند ہوں دے مجھے جامِ مۓ اطہر کی خبر
تجھ کو کوثر کا مبارک رہے پانی واعظ
زرد ہو جاتا ہے سن کر رخِ گلگوں میرا
تِری تقریر ہے یا بادِ خزانی واعظ
نقشہ فردوس کا باتوں میں دِکھا دیتا ہے
یہ زباں ہے تِری یا خامۂ مانی واعظ
چلتے پھرتے نہیں بے وجہ یہ رونا میرا
ساتھ پِھرتا ہوں لِیے غم کی نشانی واعظ
کیا رکے خامۂ تسلیمؔ دمِ فکرِ سخن
طبع میں آج ہے دریا کی روانی واعظ
تسلیم لکھنوی
No comments:
Post a Comment