Wednesday, 23 November 2016

اک آفت جاں ہے جو مداوا مرے دل کا

اک آفتِ جاں ہے جو مداوا مِرے دل کا
اچھا کوئی پھر کیوں ہو مسیحا مرے دل کا
کیوں بِھیڑ لگائی ہے مجھے دیکھ کے بیتاب
کیا کوئی تماشہ ہے تڑپنا مرے دل کا
بازارِ محبت میں کمی کرتی ہے تقدیر
بن بن کے بِگڑ جاتا ہے سودا مرے دل کا
گر وہ نہ ہوئے فیصلۂ حشر پہ راضی
کیا ہو گا پھر انجام خدایا مرے دل کا
کیا کوہکن و قیس کو دیتے دمِ تقسیم
حصہ تھا غمِ حوصلہ فرسا مرے دل کا
گو میں نہ رہوں محفلِ جاناں میں، مگر روز
تسلیمؔ! یوںہی ذکر رہے گا مرے دل کا

تسلیم لکھنوی

No comments:

Post a Comment