Wednesday 16 November 2016

ہیں پس حشر بھی اب حشر نہ جانے کیا کیا

ہیں پسِ حشر بھی اب حشر نہ جانے کیا کیا
کیا قیامت لیے آئیں گے زمانے کیا کیا
ہم پہ جو گزری، سنائیں بھی تو کن لوگوں کو
جو حقائق میں بھی بھر دیں گے فسانے کیا کیا
سچ کی تردید میں کیا جھوٹ گھڑے جائیں گے
اور پھر جھوٹ چھپانے کو بہانے کیا کیا
بادباں ہم نے بھی باندھا نہ کسی کشتی سے
ورنہ افسوں تو دکھائے تھے ہوا نے کیا کیا
کتنے نا گفتہ تخیل بھی گئے ساتھ ان کے
رفتگاں لے گئے مٹی میں خزانے کیا کیا
وقت ہر چیز کا انداز بدل دیتا ہے
ہو گئے اپنے نئے پن بھی پرانے کیا کیا
جب بھی ہنگامۂ حاضر کو بھلا کر بیٹھے
یاد آئے ہمیں اقبالؔ! زمانے کیا کیا

اقبال کوثر

No comments:

Post a Comment