ہیں پسِ حشر بھی اب حشر نہ جانے کیا کیا
کیا قیامت لیے آئیں گے زمانے کیا کیا
ہم پہ جو گزری، سنائیں بھی تو کن لوگوں کو
جو حقائق میں بھی بھر دیں گے فسانے کیا کیا
سچ کی تردید میں کیا جھوٹ گھڑے جائیں گے
بادباں ہم نے بھی باندھا نہ کسی کشتی سے
ورنہ افسوں تو دکھائے تھے ہوا نے کیا کیا
کتنے نا گفتہ تخیل بھی گئے ساتھ ان کے
رفتگاں لے گئے مٹی میں خزانے کیا کیا
وقت ہر چیز کا انداز بدل دیتا ہے
ہو گئے اپنے نئے پن بھی پرانے کیا کیا
جب بھی ہنگامۂ حاضر کو بھلا کر بیٹھے
یاد آئے ہمیں اقبالؔ! زمانے کیا کیا
اقبال کوثر
No comments:
Post a Comment