Wednesday 23 November 2016

زخم کب کا تھا درد اٹھا ہے اب

زخم کب کا تھا درد اٹھا ہے اب
اس کے جانے کا دکھ ہوا ہے اب
میری آنکھوں میں خواب ہیں جس کے
اس کی آنکھوں میں رت جگا ہے اب
سنتے آتے ہیں قافلہ دل کا
رہ گزر میں کہیں رکا ہے اب
وہ جو پتھور کا تھا مسافر وہ
شہرِ افسوں سے آ گیا ہے اب
جس کو ڈھونڈا تھا میں ہر جانب
میرے دل میں کہیں چھپا ہے اب
کتنے خوابوں میں رنگ اس کے ہیں
کتنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اب
کتنے موسم ہیں صرف اس کے لیے
کتنے چہروں پہ وہ سجا ہے اب
کتنی باتوں میں اس کی باتیں ہیں
کتنے لہجوں میں بولتا ہے اب
جو ترے شہر لے کے آتا تھا
رخ وہ دریا بدل رہا ہے اب
آؤ دستک ہی دے کے دیکھیں تو
وہی دروازہ پھر کھلا ہے اب
ایک دیوانہ اپنی وحشت میں
بات کہنے کی کہہ گیا ہے اب

تاجدار عادل

No comments:

Post a Comment