زخم کب کا تھا درد اٹھا ہے اب
اس کے جانے کا دکھ ہوا ہے اب
میری آنکھوں میں خواب ہیں جس کے
اس کی آنکھوں میں رت جگا ہے اب
سنتے آتے ہیں قافلہ دل کا
وہ جو پتھور کا تھا مسافر وہ
شہرِ افسوں سے آ گیا ہے اب
جس کو ڈھونڈا تھا میں ہر جانب
میرے دل میں کہیں چھپا ہے اب
کتنے خوابوں میں رنگ اس کے ہیں
کتنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اب
کتنے موسم ہیں صرف اس کے لیے
کتنے چہروں پہ وہ سجا ہے اب
کتنی باتوں میں اس کی باتیں ہیں
کتنے لہجوں میں بولتا ہے اب
جو ترے شہر لے کے آتا تھا
رخ وہ دریا بدل رہا ہے اب
آؤ دستک ہی دے کے دیکھیں تو
وہی دروازہ پھر کھلا ہے اب
ایک دیوانہ اپنی وحشت میں
بات کہنے کی کہہ گیا ہے اب
تاجدار عادل
No comments:
Post a Comment