Wednesday 23 November 2016

حادثہ روز نیا واقعہ تھا روز وہی

حادثہ روز نیا واقعہ تھا روز وہی
زخم ہر لمحہ نئے درد ملا روز وہی
وہی اک وصل کی خواہش کیلئے ہجر کی شام
وحشت جاں کے لئے حرفِ دعا روز وہی
وہی اک شخص کی خاطر نئی بست کا پتہ
شکلیں پر روز نئی راہ وفا روز وہی
پر نئے روز نئی طرح سے زندہ رہنا
وحشتیں روز وہی درد و دوا روز وہی
وہی ہر شام سمندر کے کنارے تنہا
اور سناٹے میں پانی کی صدا روز وہی
وہی دیوانگئ دل کیلئے ایک سفر
قافلہ روز نیا آپلہ پا روز وہی
روز جلنے کے لیے بجھتا رہا ایک دیا
اور ایک سمت سے آتی تھی ہوا روز وہی
آنکھ سے خواب تلک ہے وہی غم کا رستہ
کوششیں روز وہی قافلہ تھا روز وہی
دشت ہے آگ کا در ہے وہی رستہ عادلؔ
باغ میں یاد کے ہے پھول نیا روز وہی

تاجدار عادل

No comments:

Post a Comment