اصلاحِ اہلِ ہوش کا یارا نہیں ہمیں
اس قوم پر خدا نے اتارا نہیں ہمیں
ہم مۓ گسار بھی تھے سراپا سخا و جود
لیکن کبھی کسی نے پکارا نہیں ہمیں
دل کے معاملات میں کیا دوسروں کو دخل
رِندِ قدح گسار بھی ہیں، بت پرست بھی
قدرت نے کس ہنر سے سنوارا نہیں ہمیں
گم صم ہے کس خیال میں اے روحِ کائنات
اب تُو نے مدتوں سے پکارا نہیں ہمیں
اک وہ کہ سو نمود و نمائش کے اہتمام
اک ہم کہ احتیاجِ نظارا نہیں ہمیں
اتنا تو حوصلہ تھا کہ کھینچیں ردائے دوست
اب ہاتھ کھینچتے ہیں تو یارا نہیں ہمیں
ہاتھوں میں ہے ہمارے گریبانِ کائنات
لیکن ابھی جنوں کا اشارا نہیں ہمیں
کھینچی اگر تو ہوش میں کھینچیں گے زلفِ دوست
منظور بے خودی کا سہارا نہیں ہمیں
اب کیا سنور سکیں گے ہم آوارگانِ عشق
صدیوں کے جبر نے تو سنوارا نہیں ہمیں
آزادہ رو ہیں، مسندِ عرشِ بریں سے ہم
اترے ہیں خود، کسی نے اتارا نہیں ہمیں
سراج الدین ظفر
No comments:
Post a Comment