Tuesday 15 November 2016

بجھی ہوئی شمع کا دھواں ہوں اور اپنے مرکز کو جا رہا ہوں

بجھی ہوئی شمع کا دھواں ہوں اور اپنے مرکز کو جا رہا ہوں
کہ دل کی حسرت تو مٹ چکی ہے اب اپنی ہستی مٹا رہا ہوں
تیری ہی صورت کے دیکھنے کو بتوں کی تصویریں لا رہا ہوں 
کہ خوبیاں سب کی جمع کر کے تیرا تصور بنا رہا ہوں
کفن میں خود کو چھپا دیا ہے کہ تجھ کو پردے کی ہو نہ زحمت 
نقاب اپنے لئے بنا کر حجاب تیرا اٹھا رہا ہوں
محبت انسان کی ہے فطرت کہاں ہے امکانِ ترکِ الفت
وہ اور بھی یاد آ رہے ہیں، میں ان کو جتنا بھلا رہا ہوں
زباں پہ لبیک ہر نفس میں، جبیں پہ سجدہ ہے ہر قدم پہ
یوں جا رہا بتکدے کو ناطقؔ کہ جیسے کعبے کو جا رہا ہوں 

ناطق لکھنوی

No comments:

Post a Comment