بجھی ہوئی شمع کا دھواں ہوں اور اپنے مرکز کو جا رہا ہوں
کہ دل کی حسرت تو مٹ چکی ہے اب اپنی ہستی مٹا رہا ہوں
تیری ہی صورت کے دیکھنے کو بتوں کی تصویریں لا رہا ہوں
کہ خوبیاں سب کی جمع کر کے تیرا تصور بنا رہا ہوں
کفن میں خود کو چھپا دیا ہے کہ تجھ کو پردے کی ہو نہ زحمت
محبت انسان کی ہے فطرت کہاں ہے امکانِ ترکِ الفت
وہ اور بھی یاد آ رہے ہیں، میں ان کو جتنا بھلا رہا ہوں
زباں پہ لبیک ہر نفس میں، جبیں پہ سجدہ ہے ہر قدم پہ
یوں جا رہا بتکدے کو ناطقؔ کہ جیسے کعبے کو جا رہا ہوں
ناطق لکھنوی
No comments:
Post a Comment